EN हिंदी
ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے | شیح شیری
hum na tanha us gali se jaan ko kho kar uTh gae

غزل

ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے

میر حسن

;

ہم نہ تنہا اس گلی سے جاں کو کھو کر اٹھ گئے
سیکڑوں یاں زندگی سے ہاتھ دھو کر اٹھ گئے

دیکھنے پائے نہ ہم اشکوں کا اپنے کچھ ثمر
تخم گویا یاس کے یہ تھے جو بو کر اٹھ گئے

کل ترے بن باغ میں کچھ دل نہ اپنا جو لگا
اشک خونیں میں گلوں کو ہم ڈبو کر اٹھ گئے

لوٹتے ہیں اس ادا و ناز پر اور غش میں ہم
تھے وہ احمق جو کہ تیری کھا کے ٹھوکر اٹھ گئے

جان و دل ہم اک جگہ بیٹھے تھے کوچہ میں ترے
پاسباں کے ہاتھ سے آوارہ ہو کر اٹھ گئے

تو گیا تھا ڈھونڈھنے ان کو کہاں وے تو حسنؔ
تیرے گھر میں آئے بیٹھے لیٹے سو کر اٹھ گئے