EN हिंदी
ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی | شیح شیری
hum mutmain hain uski raza ke baghair bhi

غزل

ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی

سلطان اختر

;

ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی
ہر کام چل رہا ہے خدا کے بغیر بھی

لپٹی ہوئی ہے جسم سے زنجیر مصلحت
بے دست و پا ہیں لوگ سزا کے بغیر بھی

اک کاروبار شوق ہی ایسا ہے جس میں اب
چلتا ہے کام مکر و ریا کے بغیر بھی

اک لمحہ اپنے آپ کو یکجا نہ کر سکے
ہم منتشر ہیں سیل بلا کے بغیر بھی

اک چپ سی لگ گئی تھی مجھے اس کے روبرو
میں سرنگوں کھڑا تھا خطا کے بغیر بھی