ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی
ہر کام چل رہا ہے خدا کے بغیر بھی
لپٹی ہوئی ہے جسم سے زنجیر مصلحت
بے دست و پا ہیں لوگ سزا کے بغیر بھی
اک کاروبار شوق ہی ایسا ہے جس میں اب
چلتا ہے کام مکر و ریا کے بغیر بھی
اک لمحہ اپنے آپ کو یکجا نہ کر سکے
ہم منتشر ہیں سیل بلا کے بغیر بھی
اک چپ سی لگ گئی تھی مجھے اس کے روبرو
میں سرنگوں کھڑا تھا خطا کے بغیر بھی
غزل
ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی
سلطان اختر