EN हिंदी
ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے | شیح شیری
hum maut bhi aae to masrur nahin hote

غزل

ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے

فانی بدایونی

;

ہم موت بھی آئے تو مسرور نہیں ہوتے
مجبور غم اتنے بھی مجبور نہیں ہوتے

دل ہی میں نہیں رہتے آنکھوں میں بھی رہتے ہو
تم دور بھی رہتے ہو تو دور نہیں ہوتے

پڑتی ہیں ابھی دل پر شرمائی ہوئی نظریں
جو وار وہ کرتے ہیں بھرپور نہیں ہوتے

امید کے وعدوں سے جی کچھ تو بہلتا تھا
اب یہ بھی ترے غم کو منظور نہیں ہوتے

ارباب محبت پر تم ظلم کے بانی ہو
یہ ورنہ محبت کے دستور نہیں ہوتے

کونین پہ بھاری ہے اللہ رے غرور ان کا
اتنے بھی ادا والے مغرور نہیں ہوتے

ہے عشق ترا فانیؔ تشہیر بھی شہرت بھی
رسوائے محبت یوں مشہور نہیں ہوتے