ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
میکش ہماری خاک کے ساغر بنائیں گے
وہ اک کہیں گے ہم سے تو ہم سو سنائیں گے
منہ آئیں گے ہمارے تو اب منہ کی کھائیں گے
کچھ چارہ سازی نالوں نے کی ہجر میں مری
کچھ اشک میرے دل کی لگی کو بجھائیں گے
وہ مثل اشک اٹھ نہیں سکتا زمین سے
جس کو حضور اپنی نظر سے گرائیں گے
جھونکے نسیم صبح کے آ آ کے ہجر میں
اک دن چراغ ہستیٔ عاشق بجھائیں گے
صحرا کی گرد ہوگی کفن مجھ غریب کا
اٹھ کر بگولے میرا جنازہ اٹھائیں گے
اب ٹھان لی ہے دل میں کہ سر جائے یا رہے
جیسے اٹھے گا بار محبت اٹھائیں گے
گردش نے میری چرخ کا چکرا دیا دماغ
نالوں سے اب زمیں کے طبق تھرتھرائیں گے
بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی
ناخوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے
غزل
ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
بیدم شاہ وارثی