ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
راضی ہو بس اسی میں ہو جس میں رضائے دوست
طغرائے امتیاز ہے خود ابتلائے دوست
اس کے بڑے نصیب جسے آزمائے دوست
یاں جنبش مژہ بھی گناہ عظیم ہے
چپ چاپ دیکھتے رہو جو کچھ دکھائے دوست
ملتی نہیں کسی کو سند امتحاں بغیر
دار و رسن کے حکم کو سمجھو صلائے دوست
یعقوب پر فضول ہوئے لوگ خندہ زن
یاں لا مکاں سے آتی ہے بوئے قبائے دوست
کیا کم تھا ہجر یار ہی پھر اس پہ رشک غیر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے دوست
ہے روح بھی نثار بدن بھی نثار یار
دل بھی فدائے دوست جگر بھی فدائے دوست
جوہرؔ وہ صبر آپ ہی دے گا اگر ہمیں
ہے امتیاز وعدۂ صبر آزمائے دوست
غزل
ہم معنی ہوس نہیں اے دل ہوائے دوست
محمد علی جوہرؔ