ہم لوگ تو آکاس کی بیلوں میں گھرے ہیں
خوش بخت ہیں جو گلشن ہستی میں کھلے ہیں
اس دھوپ کی شدت سے نہیں کوئی مفر اب
دیوار کے سائے میں بڑے لوگ کھڑے ہیں
کس کس کو دکھاتے رہیں جیبوں کے یہ سوراخ
ہر موڑ پر کشکول لئے لوگ کھڑے ہیں
اک روز ہمیں ہوں گے اجالے کے پیمبر
ہم لوگ کہ مدت سے اندھیرے میں پڑے ہیں
یہ زیست کچھ ایسے ہے کہ الجھے ہوئے دھاگے
ٹوٹے ہوئے نکلیں جنہیں سمجھیں کہ سرے ہیں
ہر روز کوئی ٹانکا ادھڑ جاتا ہے پھر سے
ہم وقت کی سوزن سے کئی بار سلے ہیں
جب وقت پڑا دیکھنا دے جائیں گے دھوکا
یہ دوست نہیں فخرؔ سبھی کچے گھڑے ہیں
غزل
ہم لوگ تو آکاس کی بیلوں میں گھرے ہیں
فخر زمان