EN हिंदी
ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ | شیح شیری
hum kya jaanen qissa kya hai hum Thahre diwane log

غزل

ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ

راہی معصوم رضا

;

ہم کیا جانیں قصہ کیا ہے ہم ٹھہرے دیوانے لوگ
اس بستی کے بازاروں میں روز کہیں افسانے لوگ

یادوں سے بچنا مشکل ہے ان کو کیسے سمجھائیں
ہجر کے اس صحرا تک ہم کو آتے ہیں سمجھانے لوگ

کون یہ جانے دیوانے پر کیسی سخت گزرتی ہے
آپس میں کچھ کہہ کر ہنستے ہیں جانے پہچانے لوگ

پھر صحرا سے ڈر لگتا ہے پھر شہروں کی یاد آئی
پھر شاید آنے والے ہیں زنجیریں پہنانے لوگ

ہم تو دل کی ویرانی بھی دکھلاتے شرماتے ہیں
ہم کو دکھلانے آتے ہیں ذہنوں کے ویرانے لوگ

اس محفل میں پیاس کی عزت کرنے والا ہوگا کون
جس محفل میں توڑ رہے ہوں آنکھوں سے پیمانے لوگ