EN हिंदी
ہم کو تاثیر غم سے مرنا ہے | شیح شیری
hum ko tasir-e-gham se marna hai

غزل

ہم کو تاثیر غم سے مرنا ہے

جگر بریلوی

;

ہم کو تاثیر غم سے مرنا ہے
اب اسی رنگ میں نکھرنا ہے

دل مضطر کا خون کرنا ہے
نالۂ غم میں درد بھرنا ہے

زندگی کیا ہے صبر کرنا ہے
خون کا گھونٹ پی کے مرنا ہے

جاں نثاری قبول ہو کہ نہ ہو
ہم کو اپنی سی کر گزرنا ہے

حسن ہو عشق ہو جنوں ہو کہ ہوش
سب سے بیگانہ دل کو کرنا ہے

اب کوئی زہر دے کہ بادۂ ناب
ایک پیمانہ ہم کو بھرنا ہے

دیکھ لی ہم نے عشق کی میراث
اس سے آگے بھی اب گزرنا ہے

موج دریا ہیں ہم ہمارا کیا
کبھی مٹنا کبھی ابھرنا ہے

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں نگاہ خلوص
دل مردہ کو زندہ کرنا ہے

سم قاتل جگرؔ نہیں ملتا
دل کا قصہ تمام کرنا ہے