ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا
سارا الزام سر اپنے ہی نہ آیا ہوتا
دوست احباب بھی بے گانے نظر آتے ہیں
کاش اک شخص کو اتنا بھی نہ چاہا ہوتا
مفت مانگا تھا کسی نے سو اسے بخش دیا
ایسا سستا بھی نہ تھا دل جسے بیچا ہوتا
جان کر ہم نے کیا خود کو خراب و رسوا
ورنہ ہم وہ تھے فرشتوں نے بھی پوجا ہوتا
اہل دنیا کو بہت ہم سے بھی امیدیں تھیں
زندگی تجھ سے مگر اپنا نہ جھگڑا ہوتا
ناصحو ہم کو بھی انجام جنوں ہے معلوم
اس کو سمجھاؤ جو یہ سب نہ سمجھتا ہوتا
وہ خرد مند وہ باہوش وحیدؔ آج کہاں
ملنے والوں سے کبھی تم نے یہ پوچھا ہوتا
غزل
ہم کو منظور تمہارا جو نہ پردا ہوتا
وحید اختر