EN हिंदी
ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا | شیح شیری
hum ko KHush aaya tera humse KHafa ho jaana

غزل

ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا

سعد اللہ شاہ

;

ہم کو خوش آیا ترا ہم سے خفا ہو جانا
سر بسر خواب کا تعبیر نما ہو جانا

چند اشکوں نے چھپایا ہے مکمل منظر
ہم پہ کھلتا ہی گیا تیرا جدا ہونا

اپنی خواہش تری یادوں میں بھٹکتی ہے کہیں
جیسے گلگشت میں تتلی کا فنا ہو جانا

شاخ در شاخ سبک سار ہواؤں کا گزر
اک قفس سے کسی پنچھی کا رہا ہو جانا

اشک گرتے ہی کھلے پھول مرے دامن میں
رت بدلتے ہی پرندوں کا صدا ہو جانا

ایک سائے کا ہے احساس مرے سر پہ سدا
کون سوچے گا کبھی خود سے خدا ہو جانا

آشنا ہم بھی محبت سے نہیں ہیں ہرگز
ہائے اس ربط کا بھی نذر انا ہو جانا