ہم کو دوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے
دین چھڑایا دھرم چھڑایا دیس چھڑایا لوگوں نے
تیری گلی میں آ نکلے تھے دوش ہمارا اتنا تھا
پتھر مارے تہمت باندھی عیب لگایا لوگوں نے
تیری لٹوں میں سو لیتے تھے بے گھر عاشق بے گھر لوگ
بوڑھے برگد آج تجھے بھی کاٹ گرایا لوگوں نے
نور سحر نے نکہت گل نے رنگ شفق نے کہہ دی بات
کتنا کتنا میری زباں پر قفل لگایا لوگوں نے
میرؔ تقی کے رنگ کا غازہ روئے غزل پر آ نہ سکا
کیفؔ ہمارے میرؔ تقی کا رنگ اڑایا لوگوں نے
غزل
ہم کو دوانہ جان کے کیا کیا ظلم نہ ڈھایا لوگوں نے
کیف بھوپالی