EN हिंदी
ہم کو آغاز سفر مارتا ہے | شیح شیری
hum ko aaghaz-e-safar marta hai

غزل

ہم کو آغاز سفر مارتا ہے

نادیہ عنبر لودھی

;

ہم کو آغاز سفر مارتا ہے
مارتا کوئی نہیں ڈر مارتا ہے

زندگی ہے مری مشکل میں پڑی
عشق ہے کہ بے خبر مارتا ہے

تری مجھ سے نہیں قربت نہ سہی
مجھ کو تو حسن نظر مارتا ہے

زندگی اس کی ہے محتاج مگر
دے بھی سکتا ہے مگر مارتا ہے

اک ہنسی گونجی تھی گھر میں میرے
مجھ کو یادوں کا اثر مارتا ہے