ہم کس شب سیاہ کے دامن میں بس گئے
تیری ضیائے رخ کو دل و جاں ترس گئے
مرجھا رہی ہیں اپنی امنگوں کی کونپلیں
بادل نہ جانے کون سی جانب برس گئے
اجڑے تھے دل سو اجڑے ہوئے ہیں کچھ اور بھی
کیا کیا نہ ورنہ کوچہ و بازار بس گئے
آوارگان شوق نے منزل نہ کی قبول
گلشن کا در کھلا تو وہ سوئے قفس گئے
ہے ہجر دوستاں بھی کرم درد جاں فزا
آنکھوں میں جو بسے تھے وہ اب دل میں بس گئے

غزل
ہم کس شب سیاہ کے دامن میں بس گئے
کرم حیدری