ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے جنوں کچھ سوا کر چلے
خود تو جیسے کٹی زندگی کاٹ لی ہاں نئے دور کی ابتدا کر چلے
زرد سورج کی مشعل بھی کجلا گئی چاند تاروں کو بھی نیند سی آ گئی
اب کسی کو اگر روشنی چاہئے اپنی پلکوں پہ شمعیں جلا کر چلے
حال اپنا ہر اک سے چھپاتے رہے زخم کھاتے رہے مسکراتے رہے
تیری تشہیر ہم نے گوارا نہ کی درد دل ہم ترا حق ادا کر چلے
لاکھ الزام پر ہم کو الزام دو اور تر دامنی کے فسانے کہو
تم میں ایسا بھی کوئی تو ہو دوستو دو قدم ہی سہی سر اٹھا کر چلے
چوٹ جو بھی پڑی ٹھیک دل پر پڑی اس پہ بھی ہم نے ترک طلب تو نہ کی
ہم تو مٹ کے بھی اے گردش آسماں تیرے شانے سے شانہ ملا کر چلے
غزل
ہم کہ تجدید عہد وفا کر چلے آبروئے جنوں کچھ سوا کر چلے
مرتضیٰ برلاس