ہم کہ مغلوب گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے
خواہشیں جھریاں بن کر ابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے
اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقف سود و زیاں تھے پہلے
دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے
اب فقط انجمن آرائی ہے
اعتبار دل و جاں تھے پہلے
دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم کہ شعلوں کی زباں تھے پہلے
اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے
میری ہم زاد ہے تنہائی مری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

غزل
ہم کہ مغلوب گماں تھے پہلے
کشور ناہید