ہم کہ جو بیٹھے ہوئے ہیں اپنے سر پکڑے ہوئے
آپ ہی زنجیر ہیں اور آپ ہی جکڑے ہوئے
شام پیلی راکھ میں خون شفق کا انجماد
رات جیسے خواب یخ بستہ ہوں دن اکڑے ہوئے
رنگ کے پہرے ہیں رخساروں کی آب و تاب پر
اور رنگوں کو ہیں زلفوں کی لٹیں جکڑے ہوئے
دھوپ نے ناخن ڈبوئے ہیں گلوں کے خون میں
زخم خوردہ خوشبوئیں پھرتی ہیں سر پکڑے ہوئے
رات کالی رات پیڑوں کو ہلاتی آندھیاں
اور ہم بیٹھے طناب خواب ہیں پکڑے ہوئے
غزل
ہم کہ جو بیٹھے ہوئے ہیں اپنے سر پکڑے ہوئے
عمیق حنفی