EN हिंदी
ہم خرابے میں بسر کر گئے خاموشی سے | شیح شیری
hum KHarabe mein basar kar gae KHamoshi se

غزل

ہم خرابے میں بسر کر گئے خاموشی سے

شفقت تنویر مرزا

;

ہم خرابے میں بسر کر گئے خاموشی سے
حلقۂ موج میں گوہر گئے خاموشی سے

ساعت وصل قیامت کی گھڑی ٹھہری تھی
جسم خاموش تھے دل ڈر گئے خاموشی سے

آزمائش تھی کڑی کوئے وفا میں کہ جہاں
کج کلہ آئے سبک سر گئے خاموشی سے

ہم ترے ہجر میں آوارہ سخن ہو نکلے
زخم جو تو نے دیئے بھر گئے خاموشی سے

شکوہ سنج غم منزل تھے فقط ہم ورنہ
کارواں کتنے سفر کر گئے خاموشی سے

کوئے محبوب کی شمعوں کو خبر ہے کہ نہیں
سائے کس سمت برابر گئے خاموشی سے

دکھ کے سناٹے میں یاد آئیں گے تجھ کو ہم سے
جو ترے در پہ صدا کر گئے خاموشی سے

جانے زنداں کے در و بام کا انداز ہے کیا
نعرہ زن آئے جو اکثر گئے خاموشی سے

کچھ تو تھی لوح ازل باعث بربادیٔ دل
وار احباب بھی کچھ کر گئے خاموشی سے

کوئی منعم نہ ملا دل کا غنی یا قسمت
در بدر تیرے گداگر گئے خاموشی سے