ہم کھڑے ہیں ہاتھ یوں باندھے ہوئے
جیسے تو ہو راستہ روکے ہوئے
کس طرح طے ہو سفر تنہائی کا
دور تک ہیں آئنے رکھے ہوئے
راستہ پگڈنڈیوں میں بٹ گیا
اک مسافر کے کئی پھیرے ہوئے
لوگ رخصت ہو چکے بازار سے
ہم ابھی تک ہیں دکاں کھولے ہوئے
سائے میں آئندگی کا دکھ نہاں
دھوپ میں ہیں واقعے لکھے ہوئے
چاہتا ہوں تیرے سپنے دیکھنا
دیکھتا ہوں حادثے ہوتے ہوئے
تنہا اپنے سامنے بیٹھا ہوں میں
اور میرے ہاتھ ہیں پھیلے ہوئے
جل رہے ہیں اپنی ہی سوچوں سے ہم
اپنی ہی دہلیز میں بیٹھے ہوئے
ہو گئیں مجھ کو سبھی بیماریاں
دوسرے بیمار تب اچھے ہوئے
گھن تو محسنؔ جسم کو لگنا ہی تھا
ایک مدت ہو گئی رکھے ہوئے
غزل
ہم کھڑے ہیں ہاتھ یوں باندھے ہوئے
محسن اسرار