EN हिंदी
ہم کبھی خود سے کوئی بات نہیں کر پاتے | شیح شیری
hum kabhi KHud se koi baat nahin kar pate

غزل

ہم کبھی خود سے کوئی بات نہیں کر پاتے

اوشا بھدوریہ

;

ہم کبھی خود سے کوئی بات نہیں کر پاتے
زندگی تجھ سے ملاقات نہیں کر پاتے

بیٹھ جاتا ہے جہاں درد تھکا ہارا سا
خواب بھی اس سے سوالات نہیں کر پاتے

ان سے پھر اور کسی شے کی توقع کیسی
چند لمحے بھی جو خیرات نہیں کر پاتے

زندگی بے سر و ساماں ہی گزر جاتی ہے
دن جو کر لیتے ہیں وہ رات نہیں کر پاتے

عمر بھر ان کے مقدر میں ہیں سوکھے دریا
اپنی کوشش سے جو برسات نہیں کر پاتے

صبر کی بات بڑی شکر کے دریا گہرے
لیکن ان سے گزر اوقات نہیں کر پاتے

کبھی بھولے سے مقدر جو ہمیں دیتا ہے
سرخ رو ہم وہی لمحات نہیں کر پاتے

اک نہ اک خوف ہمیں روک لیا کرتا ہے
ہم بیاں ڈوبتے جذبات نہیں کر پاتے

پاس آتے ہیں جہاں اپنے ارادے اوشاؔ
ہم کبھی ان کی مدارات نہیں کر پاتے