ہم جو ٹوٹے تو غم دہر کا پیمانہ بنے
خاک میں مل کے بھی خاک رہ مے خانہ بنے
کون اس بزم میں سمجھے گا غم دل کی زباں
بات چھوٹی سی جب افسانہ در افسانہ بنے
سنگ اندازوں سے اونچا ہے بہت اپنا مقام
ورنہ ممکن تھا نشانہ سر دیوانہ بنے
شہر جاناں سے بھی ہم لائے محبت کا خراج
کیا ضروری ہے کہ یاں وضع گدایانہ بنے
وحشت آمادۂ رسوائی ہے بے خوف جہاں
ضبط کا ہے یہ تقاضا کہ تماشا نہ بنے
زندگی ہم ترے اتنے تو خطاوار نہ تھے
کہ جسے اپنا بنائیں وہی بیگانہ بنے
اک تمنا کوئی ایسا تو بڑا جرم نہ تھی
آنکھ تا مرگ چھلکتا ہوا پیمانہ بنے
کیا رفاقت ہے یہی اے دل آشفتہ مزاج
دیکھ ہم ایک ترے واسطے کیا کیا نہ بنے
اجنبی لگتے ہیں ہم اپنی نظر کو خود ہی
آپ اپنے سے نہ اتنا کوئی بیگانہ بنے
ہم پہ اک عمر سے طاری ہے خموشی ایسی
ایک نقشے پہ سمٹ جائے تو افسانہ بنے
اے مرے حوصلۂ غم ہے یہی وقت وفا
زہر ہی حاصل صد عمر تمنا نہ بنے
زندگی کرنے کے انداز تو بھولو نہ وحیدؔ
تم نے کیا سیکھا اگر عشق سلیقہ نہ بنے
غزل
ہم جو ٹوٹے تو غم دہر کا پیمانہ بنے
وحید اختر