EN हिंदी
ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا | شیح شیری
hum jo pahunche sar-e-maqtal to ye manzar dekha

غزل

ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا

محسن نقوی

;

ہم جو پہنچے سر مقتل تو یہ منظر دیکھا
سب سے اونچا تھا جو سر نوک سناں پر دیکھا

ہم سے مت پوچھ کہ کب چاند ابھرتا ہے یہاں
ہم نے سورج بھی ترے شہر میں آ کر دیکھا

ایسے لپٹے ہیں در و بام سے اب کے جیسے
حادثوں نے بڑی مدت میں مرا گھر دیکھا

اب یہ سوچا ہے کہ اوروں کا کہا مانیں گے
اپنی آنکھوں پہ بھروسا تو بہت کر دیکھا

ایک اک پل میں اترتا رہا صدیوں کا عذاب
ہجر کی رات گزاری ہے کہ محشر دیکھا

مجھ سے مت پوچھ مری تشنہ لبی کے تیور
ریت چمکی تو یہ سمجھو کہ سمندر دیکھا

دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا