EN हिंदी
ہم جو مل بیٹھیں تو یک جان بھی ہو سکتے ہیں | شیح شیری
hum jo mil baiThen to yak-jaan bhi ho sakte hain

غزل

ہم جو مل بیٹھیں تو یک جان بھی ہو سکتے ہیں

چرخ چنیوٹی

;

ہم جو مل بیٹھیں تو یک جان بھی ہو سکتے ہیں
پورے اپنے سبھی ارمان بھی ہو سکتے ہیں

تجھ سے اس طرح پہ آ پہنچا ہے رشتہ اپنا
بن بلائے ترے مہمان بھی ہو سکتے ہیں

ہم ترے نام کی جپتے نہیں مالا ہی فقط
ہم ترے نام پہ قربان بھی ہو سکتے ہیں

دل میں آنے کی بھلا آپ کو دعوت میں دوں
گھر کے مالک کبھی مہمان بھی ہو سکتے ہیں

بت کافر کی پرستش پہ کوئی قید نہیں
پوجنے والے مسلمان بھی ہو سکتے ہیں

بے رخی تو نے بھی برتی جو خدایا ان سے
تجھ سے برہم ترے انسان بھی ہو سکتے ہیں

آج جو گردش دوراں کا اڑاتے ہیں مذاق
کل وہی لوگ پریشان بھی ہو سکتے ہیں

تو جو سمجھے مرے ارمانوں کی اہمیت کو
میرے ارماں ترے ارمان بھی ہو سکتے ہیں

جب خطا کرتے تھے اس وقت نہ سوچا اے چرخؔ
ہم سر حشر پشیمان بھی ہو سکتے ہیں