EN हिंदी
ہم جھکاتے بھی کہاں سر کو قضا سے پہلے | شیح شیری
hum jhukate bhi kahan sar ko qaza se pahle

غزل

ہم جھکاتے بھی کہاں سر کو قضا سے پہلے

سلمیٰ شاہین

;

ہم جھکاتے بھی کہاں سر کو قضا سے پہلے
وقت نے دی ہے سزا ہم کو خطا سے پہلے

اپنی قسمت میں کہاں رقص شرر کا منظر
شمع جاں بجھ گئی دامن کی ہوا سے پہلے

یہ الگ بات کہ منزل کا نشاں کوئی نہ تھا
کوہسار اور بھی تھے کوہ ندا سے پہلے

مدعا کوئی نہ تھا تیرے سوا کیا کرتے
دل دھڑکتا ہی رہا حرف دعا سے پہلے

روبرو اس کے رہی آئنہ بن کر شاہین
دیکھ لے اپنی نظر جرم جفا سے پہلے

اس کی آنکھوں میں عجب سحر ہے سلمیٰ شاہینؔ
ہو گئی ہوں میں شفایاب دوا سے پہلے