ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں
ہم سے بھی پیت کی بات کرو کچھ ہم سے بھی لوگو پیار کرو
تم تو پریشاں ہو بھی سکو گے ہم کو یہاں پہ دوام کہاں
سانجھ سمے کچھ تارے نکلے پل بھر چمکے ڈوب گئے
امبر امبر ڈھونڈ رہا ہے اب انہیں ماہ تمام کہاں
دل پہ جو بیتے سہہ لیتے ہیں اپنی زباں میں کہہ لیتے ہیں
انشاؔ جی ہم لوگ کہاں اور میرؔ کا رنگ کلام کہاں
غزل
ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں
ابن انشا