ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
نہ کفر کے محرم ہیں نہ اسلام سے واقف
تلقین کرے عرض تمنا ہمیں اس سے
محرم نہیں ہے اس بت خودکام سے واقف
وہ دور وصال آہ کدھر ہے کہ ہم اور وہ
دنیا میں نہ تھے نامہ و پیغام سے واقف
کیا پوچھو ہو ہم روش باغ و چمن کو
ہم تو رہے کنج قفس و دام سے واقف
شیرینیٔ بوسہ سے مذاق اس کا ہو پھر تلخ
عاشق جو ہوا لذت دشنام سے واقف
بد نام نہ کر عشق کو جا کام کر اپنا
ہے اہل ہوس تو نہیں اس کام سے واقف
آغاز محبت کے مزے نے کیا غافل
اب تک نہ تھے ہم اس کے بد انجام سے واقف
غزل
ہم عشق سوا کم ہیں کسی نام سے واقف
حسرتؔ عظیم آبادی