ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیں
مطلب جو ہمارا سن سن کر کہتے ہیں ہم اونچا سنتے ہیں
ہم کچھ نہ کسی سے کہتے ہیں ہم کچھ نہ کسی کی سنتے ہیں
بیٹھے ہوئے بزم دل کش میں بس دل کے ٹکڑے چنتے ہیں
الفت کے فسانے پر دونوں سر اپنا اپنا دھنتے ہیں
ہم سنتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم کہتے ہیں وہ سنتے ہیں
دل سا بھی کوئی ہم درد نہیں ہم سا بھی کوئی دل سوز نہیں
ہم جلتے ہیں تو دل جلتا ہے دل بھنتا ہے تو ہم بھنتے ہیں
تقدیر کی گردش سے نہ رہا محفوظ ہمارا دامن بھی
چنتے تھے کبھی ہم لالہ و گل اب کنکر پتھر چنتے ہیں
آج آئیں گے کل آئیں گے کل آئیں گے آج آئیں گے
مدت سے یہی وہ کہتے ہیں مدت سے یہی ہم سنتے ہیں
آہیں نہ کبھی منہ سے نکلیں نالے نہ کبھی آئے لب تک
ہو ضبط تپ الفت کا برا ہم دل ہی دل میں بھنتے ہیں
مرغان چمن بھی میری طرح دیوانے ہیں لیکن فرق یہ ہے
میں دشت میں تنکے چنتا ہوں وہ باغ میں تنکے چنتے ہیں
ہو بزم طرب یا بزم الم ہر مجمع میں ہر موقع پر
ہم شمع کے شعلے کی صورت جلتے بھی ہیں سر بھی دھنتے ہیں
گلزار جہاں کی نیرنگی آزار جنہیں پہنچاتی ہے
کانٹوں کو ہٹا کر دامن میں وہ پھول چمن کے چنتے ہیں
آزار و ستم کے شکوؤں کا جھگڑا بھی چکے قصہ بھی مٹے
تم سے جو کہے کچھ بات کوئی کہہ دو اسے ہم کب سنتے ہیں
گھبرا کے جو میں ان کے در پر دیتا ہوں کبھی آواز انہیں
تو کہتے ہیں وہ ٹھہرو دم لو آتے ہیں اب افشاں چنتے ہیں
اے نوحؔ کہاں وہ جوش اپنا وہ طور اپنے وہ بات اپنی
طوفان اٹھاتے تھے پہلے اب حسرت سے سر دھنتے ہیں
غزل
ہم عشق میں ان مکاروں کے بے فائدہ جلتے بھنتے ہیں
نوح ناروی