ہم ہی نہیں جو تیری طلب میں ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں
اور بہت سے خاک اڑائے بال بکھیرے پھرتے ہیں
پاس اگر سرمایۂ دل ہے سائے سے ہوشیار رہو
ان راہوں میں بھیس بدل کر چور لٹیرے پھرتے ہیں
میں نے سنا ہے صحرا پر بھی چھینٹا تو پڑ جاتا ہے
دیکھنا یہ ہے شومئی قسمت کب دن میرے پھرتے ہیں
راہ خرد سے ممکن تھا آواز کو سن کر لوٹ آتے
راہ جنوں پر جانے والے کس کے پھیرے پھرتے ہیں
تو نے کبھی تنہائی میں دو چار گھڑی یہ سوچا ہے
تیرے لیے ہم ٹھوکریں کھاتے سانجھ سویرے پھرتے ہیں
غزل
ہم ہی نہیں جو تیری طلب میں ڈیرے ڈیرے پھرتے ہیں
مرتضیٰ برلاس