ہم ہر قدم پر سوچ کا رخ موڑتے رہے
کتنے صنم بناتے رہے توڑتے رہے
ہلچل جو دل میں تھی وہ نہ لفظوں میں ڈھل سکی
رشتے زبان و دل کے بہت جوڑتے رہے
ابھرا کئے شکوک نئے دل میں ہر گھڑی
ہر دم نیا شگوفہ کوئی چھوڑتے رہے
خود میں تھے ایسے دہر سے نا آشنا رہے
روشن حقیقتوں سے بھی منہ موڑتے رہے
پرتو تھا اک جمال کا آیا گزر گیا
سایہ تھا جس کے پیچھے سدا دوڑتے رہے
اب تک جنون عشق کی ہیں سر بلندیاں
ناحق خرد کے نام پہ سر پھوڑتے رہے
غزل
ہم ہر قدم پر سوچ کا رخ موڑتے رہے
خواجہ محمود الحسن