ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں
خوش ہیں کہ ترے غم کے سزا وار ہوئے ہیں
اٹھے ہیں ترے در سے اگر صورت دیوار
رخصت بھی تو جوں سایۂ دیوار ہوئے ہیں
کیا کہئے نظر آتی ہے کیوں خواب یہ دنیا
کیا جانیے کس خواب سے بیدار ہوئے ہیں
آنکھوں میں ترے جلوے لیے پھرتے ہیں ہم لوگ
ہم لوگ کہ رسوا سر بازار ہوئے ہیں
کچھ دیکھ کے پیتے ہیں لہو اہل تمنا
مے خوار کسی بات پہ مے خوار ہوئے ہیں
زنجیر حوادث کی ہے جھنکار بہر گام
کیا جرم کیا تھا کہ گرفتار ہوئے ہیں
اظہار غم زیست کریں کیا کہ ظفرؔ ہم
وہ غم ہیں کہ شرمندۂ اظہار ہوئے ہیں
غزل
ہم گرچہ دل و جان سے بیزار ہوئے ہیں
یوسف ظفر