EN हिंदी
ہم فلک کے آدمی تھے ساکنان قریۂ مہتاب تھے | شیح شیری
hum falak ke aadmi the sakinan-e-qarya-e-mahtab the

غزل

ہم فلک کے آدمی تھے ساکنان قریۂ مہتاب تھے

ریاض مجید

;

ہم فلک کے آدمی تھے ساکنان قریۂ مہتاب تھے
ہم ترے ہاتھوں میں کیسے آ گئے ہم تو بڑے نایاب تھے

وقت نے ہم کو اگر پتھر بنا ڈالا ہے تو ہم کیا کریں
یاد ہیں وہ دن بھی ہم کو ہم بھی جب مہر و وفا کا باب تھے

زر لٹاتے گزرے موسم آنے والی روشنی لاتی رتیں
چند یادیں چند امیدیں ہماری زیست کے اسباب تھے

خواب اور تعبیر ہیں دو انتہاؤں پر ہمیں یہ علم تھا
ہم جیے جاتے تھے پھر بھی اپنے کیا فولاد کے اعصاب تھے

ہو سکی ہیں کب خیالوں کی ہم آہنگی کی ضامن قربتیں
ایک ہی بستر پہ سونے والوں کے بھی اپنے اپنے خواب تھے

جو ریاضؔ آتا تھا ہم کو یاد وہ اک قریۂ سرسبز تھا
چند روشن طاق تھے کچھ نور میں ڈوبے ہوئے محراب تھے