ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر
اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری
کبھی تو ہم سے ملوگے حجاب سے باہر
تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے
نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر
کسی کے دل میں اترنا ہے کار لا حاصل
کہ ساری دھوپ تو ہے آفتاب سے باہر
شناسؔ کھول دیئے جس نے ہم پہ سب اسرار
وہ ایک لفظ ملا ہے کتاب سے باہر
غزل
ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر
فہیم شناس کاظمی