ہم دوستوں کے لطف و کرم دیکھتے رہے
ہوتے رہے جو دل پہ ستم دیکھتے رہے
خاموش قہقہوں میں بھی غم دیکھتے رہے
دنیا نہ دیکھ پائی جو ہم دیکھتے رہے
اللہ رے جوش عشق کہ اٹھتی جدھر نظر
تم کو ہی بس خدا کی قسم دیکھتے رہے
ناگاہ پڑ گئی جو کہیں ان پہ اک نظر
تا دیر اپنے آپ کو ہم دیکھتے رہے
ہم نے تو بڑھ کے چوم لیا آستان یار
حسرت سے ہم کو دیر و حرم دیکھتے رہے
جو ساتھ میرے چل نہ سکے راہ شوق میں
وہ صرف میرے نقش قدم دیکھتے رہے
برسوں کے بعد ان سے ملے بھی تو اس طرح
پہروں وہ ہم کو اور انہیں ہم دیکھتے رہے
ہر شام ایک خواب سحر میں گزار دی
ہر صبح ایک شام الم دیکھتے رہے
چلتے ہی دور جام جو اہل نگاہ تھے
کس کس کی آستین تھی نم دیکھتے رہے
سب کچھ وہی تھا پھر بھی گلستاں میں آج ہم
کیا شے تھی ہو گئی ہے جو کم دیکھتے رہے
بستی میں لوگ ایسے بھی ہیں کچھ بسے ہوئے
آیا جدھر سے تیر ستم دیکھتے رہے
آئے تھے اپنے چاہنے والوں کو دیکھنے
کتنا ہے کس مریض میں دم دیکھتے رہے
غزل
ہم دوستوں کے لطف و کرم دیکھتے رہے
نوشاد علی