ہم دل کی نگاہوں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
وہ بات نظر والے کہاں دیکھ رہے ہیں
جن ہاتھوں میں کل امن کا پرچم تھا انہی میں
حیرت ہے کہ شمشیر و سناں دیکھ رہے ہیں
کیا جانیے کیوں سوگ کا منظر ہے چمن میں
خاموش زباں اشک رواں دیکھ رہے ہیں
آخر کوئی افسوس کرے بھی تو کہاں تک
ہر سمت تباہی کا سماں دیکھ رہے ہیں
آئے گا دل و جاں بھی لٹانے کا زمانہ
کچھ آج بھی الفت کا نشاں دیکھ رہے ہیں
ممکن ہے خرد مندوں کو دیوانہ بنا دے
جو عزم مرے دل میں جواں دیکھ رہے ہیں
ان سے کوئی امید وفا رکھے تو کیسے
ہر بات میں جو سود و زیاں دیکھ رہے ہیں
خاموشی سے حل اپنے مسائل نہیں ہوں گے
کچھ کہیے سحرؔ اہل زباں دیکھ رہے ہیں

غزل
ہم دل کی نگاہوں سے جہاں دیکھ رہے ہیں
سحر محمود