ہم دل زہرہ وشاں میں خالق اندیشہ ہیں
گو خراباتی سہی جبریل کے ہم پیشہ ہیں
پیرویٔ واعظان شہر میں بزدل ہیں ہم
اور غزالوں کا تعاقب ہو تو شیر بیشہ ہیں
جانیے کیا کیا مدارج اور بھی کرنے ہیں طے
ہم ابھی ذہن خدا وندی میں اک اندیشہ ہیں
خشت و سنگ نا تراشیدہ سے ابھرا خد حسن
مے گساروں کی نگاہیں ہیں کہ ضرب تیشہ ہیں
ہم نہیں ہیں کوہ کن لیکن ہماری یادگار
وقت کے کوہ گراں پر کچھ نقوش تیشہ ہیں
غزل
ہم دل زہرہ وشاں میں خالق اندیشہ ہیں
سراج الدین ظفر