ہم بکھر جائیں گے نغموں بھرے خوابوں کی طرح
مطربہ! چھیڑ کبھی ہم کو ربابوں کی طرح
ایک پردے میں ہیں در پردہ بہت سے پردے
تیری یادیں ہیں پراسرار حجابوں کی طرح
ظرف کی بات ہے کانٹوں کی خلش دل میں لیے
لوگ ملتے ہیں تر و تازہ گلابوں کی طرح
جن کے سینوں میں ہیں محفوظ محبت کے خطوط
ہم ہیں کچھ ایسی دل آویز کتابوں کی طرح
دل تھا وہ ٹوٹا ہوا تاج محل تھا کیا تھا
چاندنی ڈھونڈ رہی ہے جسے خوابوں کی طرح
پیاس کی بوند جو چھلکے تو سمندر بن جائے
ہر نفس خواب دکھاتا ہے سرابوں کی طرح
پریمؔ شاعر تو شہنشاہ ہوا کرتے ہیں!
تم مگر پھرتے ہو کیوں خانہ خرابوں کی طرح
غزل
ہم بکھر جائیں گے نغموں بھرے خوابوں کی طرح
پریم واربرٹنی