ہم بھی کچھ کچھ خراب ہو جائیں
دور سارے حجاب ہو جائیں
چاند بادل کی اوٹ سے نکلے
غم یہ سارے نقاب ہو جائیں
کچھ تو اپنی نظر بھی آوارہ
کچھ اب وہ ماہتاب ہو جائیں
کون پھر ان سے دل کی بات کہے
جب وہ عالی جناب ہو جائیں
چھو کے نکلیں جو تیرے ہونٹوں کو
لفظ سارے گلاب ہو جائیں
دھاندلی کر کے ہی سہی لیکن
ہم ترا انتخاب ہو جائیں
وہ تو دیوی ہے حسن کی اشرفؔ
اس کو دیکھے ثواب ہو جائیں
غزل
ہم بھی کچھ کچھ خراب ہو جائیں
اشرف علی اشرف