ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
تم بھی اک آدھ گھڑی کاش ہمارے ہوتے
عکس پانی میں محبت کے اتارے ہوتے
ہم جو بیٹھے ہوئے دریا کے کنارے ہوتے
جو مہ و سال گزارے ہیں بچھڑ کر ہم نے
وہ مہ و سال اگر ساتھ گزارے ہوتے
کیا ابھی بیچ میں دیوار کوئی باقی ہے
کون سا غم ہے بھلا تم کو ہمارے ہوتے
آپ تو آپ ہیں خالق بھی ہمارا ہوتا
ہم ضرورت میں کسی کو نہ پکارے ہوتے
ساتھ احباب کے حاسد بھی ضروری ہیں عدیمؔ
ہم سخن اپنا سناتے جہاں سارے ہوتے
غزل
ہم بہر حال دل و جاں سے تمہارے ہوتے
عدیم ہاشمی