ہم اپنی محبت کا تماشا نہیں کرتے
کرتے ہیں اگر کچھ تو دکھاوا نہیں کرتے
یہ سچ ہے کہ دنیا کی روش ٹھیک نہیں ہے
کچھ ہم بھی تو دنیا کو گوارا نہیں کرتے
اک بار تو مہمان بنیں گھر پہ ہمارے
یہ ان سے گزارش ہے تقاضا نہیں کرتے
دنیا کے جھمیلے ہی کچھ ایسے ہیں کہ ان کو
ہم بھول تو جاتے ہیں بھلایا نہیں کرتے
فردا پہ ہیں نظریں تو کبھی حال پہ نظریں
ماضی کو مگر مڑ کے بھی دیکھا نہیں کرتے
جن میں کہ بزرگوں کی کوئی قدر نہیں ہو
ہم ایسے گھروں میں کبھی رشتہ نہیں کرتے
بارش ہو کہ طوفان ہو یا آگ کا جنگل
ہم گھر سے نکل جائیں تو سوچا نہیں کرتے
جو خواب نظر آتا ہے سرسبز زمیں کا
اس خواب کی تعبیر بتایا نہیں کرتے
بازار میں بکتے نہیں وہ لوگ عموماً
رشتوں کا جو اپنے کبھی سودا نہیں کرتے
غزل
ہم اپنی محبت کا تماشا نہیں کرتے
مشتاق صدف