ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے
جو ہم سے زیادہ جانتے تھے وہ ہم سے زیادہ روتے تھے
اچھوں کو جہاں سے اٹھے ہوئے اب کتنی دہائیاں بیت چکیں
آخر میں ادھر جو گزرے ہیں شاید ان کے پر پوتے تھے
ان پیڑوں اور پہاڑوں سے ان جھیلوں ان میدانوں سے
کس موڑ پہ جانے چھوٹ گئے کیسے یارانے ہوتے تھے
جو شبد اڑانیں بھرتے تھے آزاد فضائے معنی میں
یوں شعر کی بندش میں سمٹے گویا پنجروں کے طوطے تھے
وہ بھیگے لمحے سوچ بھرے وہ جذبوں کے چقماق کہاں
جو مصرعۂ تر دے جاتے تھے لفظوں میں آگ پروتے تھے
یہ خشک قلم بنجر کاغذ دکھلائیں کسے سمجھائیں کیا
ہم فصل نرالی کاٹتے تھے ہم بیج انوکھے بوتے تھے
اب سازؔ نشیبوں میں دل کے بس کیچڑ کالی دلدل ہے
یاں شوق کے ڈھلتے جھرنے تھے یاں غم کے ابلتے سوتے تھے
غزل
ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے
عبد الاحد ساز