ہم اپنے عشق کی بابت کچھ احتمال میں ہیں
کہ تیری خوبیاں اک اور خوش خصال میں ہیں
تمیز ہجر و وصال اس مقام پر بھی ہے
حساب راہ محبت میں گرچہ حال میں ہیں
کوئی بھی پاس نہیں تو ترا خیال نہ غم
بقول پیر جہاں دیدہ ہم وصال میں ہیں
بہت ضروری نہیں ہے کہ تو سبب ٹھہرے
یہ بات اپنی جگہ ہم کسی ملال میں ہیں
گزشتہ سال رہا جن پہ تنگ عرصۂ وقت
وہ سارے خواب بہ تعبیر اب کے سال میں ہیں
غزل
ہم اپنے عشق کی بابت کچھ احتمال میں ہیں
شہرام سرمدی