ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں
وہ سوچتا ہے کہ اس کے خیال میں گم ہیں
ہر ایک لمحۂ لذت حساب مانگتا ہے
سو ہم بھی سب کی طرح اک سوال میں گم ہیں
شفق کی آنکھ کسے رو رہی ہے مدت سے
دیار و دشت سبھی کس ملال میں گم ہیں
رتوں کے دائرے کیوں آج تک سلامت ہیں
تمام سلسلے کیوں ماہ و سال میں گم ہیں
یہ چاند جھیل کے پانی سے ہم کلام ہے کیوں
کنارے کس لیے رنج و ملال میں گم ہیں
غزل
ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں
اسعد بدایونی