EN हिंदी
ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں | شیح شیری
hum apne hijr mein apne visal mein gum hain

غزل

ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں

اسعد بدایونی

;

ہم اپنے ہجر میں اپنے وصال میں گم ہیں
وہ سوچتا ہے کہ اس کے خیال میں گم ہیں

ہر ایک لمحۂ لذت حساب مانگتا ہے
سو ہم بھی سب کی طرح اک سوال میں گم ہیں

شفق کی آنکھ کسے رو رہی ہے مدت سے
دیار و دشت سبھی کس ملال میں گم ہیں

رتوں کے دائرے کیوں آج تک سلامت ہیں
تمام سلسلے کیوں ماہ و سال میں گم ہیں

یہ چاند جھیل کے پانی سے ہم کلام ہے کیوں
کنارے کس لیے رنج و ملال میں گم ہیں