ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں
تجھ سے پیار کی باتیں کرنے دور کہیں سے آئے ہیں
اپنی آنکھیں راہ گزر ہیں اپنا چہرہ پتھر ہے
تیرے وعدوں نے بھی مجھ کو کیا کیا خواب دکھائے ہیں
تیرے آنچل کی چھاؤں سے شہر جنوں کی دھوپ تلک
خوشبو بن کر بکھرے ہم غنچہ بن کر مرجھائے ہیں
کوئی اجالا تھا جو ہمارے جسم و جاں سے گزرا ہے
کس خورشید نے اندھے گھر میں اپنے عکس اڑائے ہیں
تازہ دھوپ میں جھیل کنارے جب سے تجھ کو دیکھا ہے
جاذبؔ نے اجلے اجلے رنگوں کے خواب بچھائے ہیں
غزل
ہم اپنے دل کی دھڑکن میں ایک تمنا لائے ہیں
جاذب قریشی