ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں دم میں دم جیسے
ہمارے ساتھ ہوں دو چار بھی جو ہم جیسے
کسے دماغ جنوں کی مزاج پرسی کا
سنے گا کون گزرتی ہے شام غم جیسے
بھلا ہوا کہ ترا نقش پا نظر آیا
خرد کو راستہ سمجھے ہوئے تھے ہم جیسے
مری مثال تو ایسی ہے جیسے خواب کوئی
مرا وجود سمجھ لیجئے عدم جیسے
اب آپ خود ہی بتائیں یہ زندگی کیا ہے
کرم بھی اس نے کئے ہیں مگر ستم جیسے
غزل
ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں دم میں دم جیسے
اجمل سراج