ہم اپنا آپ لٹانے کہاں پہ آ گئے ہیں
خود اپنی قدریں گنوانے کہاں پہ آ گئے ہیں
دلوں سے دل ملے رہتے تھے غربتوں میں میاں
شکم کی آگ بجھانے کہاں پہ آ گئے ہیں
لکھا تھا پرکھوں نے صدیوں میں جن کو محنت سے
وہ سارے شجرے جلانے کہاں پہ آ گئے ہیں
جو چاہتے تھے رہے اپنی ذات تک ہر بات
وہ اپنے زخم دکھانے کہاں پہ آ گئے ہیں
زمیں پہ اپنی ہی جل بجھ کے خاک ہو جاتے
ہم اپنے دل کو جلانے کہاں پہ آ گئے ہیں
یہ وہ جگہ ہے جہاں جسم تک نہیں چھپتے
ہم اپنے سر کو چھپانے کہاں پہ آ گئے ہیں
کسی بھی رشتہ کی عزت یہاں نہیں باقی
میاں یہ آج زمانے کہاں پہ آ گئے ہیں
یہ سچ ہے عہد ترقی کیا تھا خود سے عدیلؔ
مگر یہ عہد نبھانے کہاں پہ آ گئے ہیں
غزل
ہم اپنا آپ لٹانے کہاں پہ آ گئے ہیں
عدیل زیدی