EN हिंदी
ہم اکیلے ہی سہی شہر میں کیا رکھتے تھے | شیح شیری
hum akele hi sahi shahr mein kya rakhte the

غزل

ہم اکیلے ہی سہی شہر میں کیا رکھتے تھے

محمد اجمل نیازی

;

ہم اکیلے ہی سہی شہر میں کیا رکھتے تھے
دل میں جھانکو تو کئی شہر بسا رکھتے تھے

اب کسے دیکھنے بیٹھے ہو لئے درد کی ضو
اٹھ گئے لوگ جو آنکھوں میں حیا رکھتے تھے

اس طرح تازہ خداؤں سے پڑا ہے پالا
یہ بھی اب یاد نہیں ہے کہ خدا رکھتے تھے

چھین کر کس نے بکھیرا ہے شعاعوں کی طرح
رات کا درد زمانے سے بچا رکھتے تھے

لے گئیں جانے کہاں گرم ہوائیں ان کو
پھول سے لوگ جو دامن میں صبا رکھتے تھے

کل جو دیکھا تو وہ آنکھوں میں لئے پھرتا تھا
ہائے وہ چیز کہ ہم سب سے چھپا رکھتے تھے

تازہ زخموں سے چھلک اٹھیں پرانی ٹیسیں
ورنہ ہم درد کا احساس نیا رکھتے تھے

یہ جو روتے ہیں لئے آنکھ میں ٹوٹے تارے
اپنے چہرے پہ کبھی چاند سجا رکھتے تھے

آج وہ شہر خموشاں کی طرح ہیں اجملؔ
کل تلک شہر میں جو دھوم مچا رکھتے تھے