ہم اہل آرزو پہ عجب وقت آ پڑا
ہر ہر قدم پہ کھیل نیا کھیلنا پڑا
اپنا ہی شہر ہم کو بڑا اجنبی لگا
اپنے ہی گھر کا ہم کو پتہ پوچھنا پڑا
انسان کی بلندی و پستی کو دیکھ کر
انساں کہاں کھڑا ہے ہمیں سوچنا پڑا
مانا کہ ہے فرار مگر دل کو کیا کریں
ماضی کی یاد ہی میں ہمیں ڈوبنا پڑا
مجبوریاں حیات کی جب حد سے بڑھ گئیں
ہر آرزو کو پاؤں تلے روندنا پڑا
آگے نکل گئے تھے ذرا اپنے آپ سے
ہم کو حبیبؔ خود کی طرف لوٹنا پڑا
غزل
ہم اہل آرزو پہ عجب وقت آ پڑا
حبیب حیدرآبادی