EN हिंदी
ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں | شیح شیری
hum agar radd-e-amal apna dikhane lag jaen

غزل

ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں

رؤف خیر

;

ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں

خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں

دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں

پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں

اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں

ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں

ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں

دعوئ خوش سخنی خیرؔ ابھی زیب نہیں
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں