ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں
خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں
دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں
پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں
اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں
ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں
ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں
دعوئ خوش سخنی خیرؔ ابھی زیب نہیں
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں
غزل
ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
رؤف خیر