ہم آج بزم رقیباں سے سرخ رو آئے
یہ ہے عجیب کہ اب وہ بھی ہو بہ ہو آئے
ہے کون یاں جو نہیں جام و مے کا شیدائی
یہ کب ہو آپ ہی چل کر کہیں سبو آئے
سبھی نے جان دی تیری گلی میں اے ہمدم
کسے مجال کہ اب تیرے رو بہ رو آئے
ترے فراق میں ہم نے بہائے اشک جگر
یہ سب نے چاہا مگر آئے تو لہو آئے
ہے اب کہاں وہ وفا اور وہ وفا کیسی
وہ اور وقت تھا ہم دیکھ کو بہ کو آئے
غزل
ہم آج بزم رقیباں سے سرخ رو آئے
اخلاق احمد آہن