EN हिंदी
حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے | شیح شیری
halqe nahin hain zulf ke halqe hain jal ke

غزل

حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے

اکبر الہ آبادی

;

حلقے نہیں ہیں زلف کے حلقے ہیں جال کے
ہاں اے نگاہ شوق ذرا دیکھ بھال کے

پہنچے ہیں تا کمر جو ترے گیسوئے رسا
معنی یہ ہیں کمر بھی برابر ہے بال کے

بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل
کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے

قامت سے تیرے صانع قدرت نے اے حسیں
دکھلا دیا ہے حشر کو سانچے میں ڈھال کے

شان دماغ عشق کے جلوے سے یہ بڑھی
رکھتا ہے ہوش بھی قدم اپنے سنبھال کے

زینت مقدمہ ہے مصیبت کا دہر میں
سب شمع کو جلاتے ہیں سانچے میں ڈھال کے

ہستی کے حق کے سامنے کیا اصل این و آں
پتلے یہ سب ہیں آپ کے وہم و خیال کے

تلوار لے کے اٹھتا ہے ہر طالب فروغ
دور فلک میں ہیں یہ اشارے ہلال کے

پیچیدہ زندگی کے کرو تم مقدمے
دکھلا ہی دے گی موت نتیجہ نکال کے