حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
سات سروں کی لہروں پہ ہلکورے لیتے پھول سے ہیں
اک مدہوش فضا سنتی ہے اک چڑیا کے گانے کو
بولتی ہو تو یوں ہے جیسے پھول پہ تتلی ڈولتی ہو
تم نے کیسا سبز کیا ہے اور کیسے ویرانے کو
لیکن ان سے اور طرح کی روشنیاں سی پھوٹ پڑیں
آنسو تو مل کر نکلے تھے آنکھ کے رنگ چھپانے کو
جیسے کوئی جسم کے اندر دیواریں سی توڑتا ہے
دیکھو اس پاگل وحشی کو روکو اس دیوانے کو
غزل
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
سعود عثمانی